مطالعہ پاکستان


پاکستان کا نظریاتی اساس

سوال: کسی نظریے کے ماخذ کیا ہوتے ہیں؟

نظریے کے معنی اور مفہوم

نظریہ فرانسیسی لفظ آئیڈیولوجی کا ترجمہ ہے۔یہ دو اجزاء”آئیڈیا“ اور ”لوجی“ پر مشتمل ہے۔نظریے کا مفہوم ہے اندازِ فکر اور تصور حیات ۔ نظریہ عام طور پر اُس تہذیبی یا معاشرتی لائحہ عمل کو کہتے ہیں جو کسی قوم کا مشترکہ نصب العین بن جائے۔ نظریے کا لفظ زیادہ وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کا ایسا نظام وجود میں آتا ہے جس میں اعتقادات، اور زندگی کے مقاصد شامل ہوں۔نظریہ کسی بھی معاشرہ کو ایسی شکل میں لے آتاہے جس میں افراد کے اعتقادات، رسوم و رواج اور مذہبی معاملات مشترکہ ہوتے ہیں۔ دیگر معاشروں کے مقابلے میں اسلامی معاشرہ بالکل منفرد ہے۔ کیونکہ یہ الٰہامی اصول اور نظریات پرقائم ہوتا ہے۔جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیے گئے ہیں۔

نظریے کا منبع اور ماخذ

کسی بھی نظریے کی اثر انگیزی کا انحصار افراد کے خلوص، لگن، وفاداری اور وابستگی پر ہوتا ہے۔ اسلامی نظریہ افراد کے ذہنوں پر فطری طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے نتیجتاً اسلام کے ابدی اصولوں پر ان کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے۔ اسلامی نظریے کا سرچشمہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔

قرآن مجید

قرآن مجید کے احکام اسلام کی بنیادہیں۔ان سے معاشی اور معاشرتی قوانین کے سلسلے میں مفصّل و مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی بدولت انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی خوشگوار، پرُامن اور بامقصد ہوجاتی ہے۔

سنّت نبوی

ہمارے پیارے نبی نے اسلامی احکامات کو اپنے اقوال و افعال سے واضح فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کی مفصّل تشریح سنّت نبوی سے ملتی ہے جو اسلامی اصول و قوانین کا سرچشمہ ہے۔سنّت ایک عربی اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں ”ایسا راستہ جس کی پیروی کی جائے۔“ قرآن مجید اسلامی اصول کے بنیادی خدوخال بیان کرتا ہے۔لیکن ان کی تشریح رسول اکرم کی احادیث سے ملتی ہے۔اسلام کے بنیادی ارکان یعنی نماز، روزہ ،زکوٰة، حج اور جہاد کی تفصیلات رسول اکرم نے بیان فرمائی ہیں۔

رسوم و رواج

مختلف علاقوں میں پائے جانے والے ایسے رسوم و رواج اورایسی اقدار جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہوںمسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ انہیں اپنے مخصوص خطے یا علاقے میں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں میلے، اجتماعات اور دیگر تقریبات شامل ہیں۔


اسلام میں جمہوریت کے اصول

اسلام میں جمہوریت کا تصور دنیوی اصولوں سے مختلف ہے۔ اسلامی معاشرہ اس بات پر کامل ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات میں اقتداراعلیٰ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس پوری کائنات کا حاکم اعلیٰ ہے۔عوام کے نمائندے صرف ان حدود کے اندر اختیارات استعمال کرسکتے ہیںجو اسلام نے انہیں فراہم کردی ہیں۔ تاہم عوام کو اس امر کی مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے معاملات چلانے کے لئے اللہ سے ڈرنے والے صالح، متقی اور پرہیزگار افراد کو منتخب کریں۔ اسلامی معاشرے میں حکمرانوں پر عوام کو اس وقت تک اعتماد رہتا ہے جب تک کہ وہ اسلامی قوانین کی پیروی کریں۔ اسی سے اسلام میں جمہوریت کا تصور واضح ہوتا ہے۔ اسلام میں جمہوریت کے اصول درج ذیل ہیں۔


عدل و انصاف

عدل کے لفظی معنی ہیں کہ صحیح چیز کو صحیح جگہ پر رکھنا۔ یہ قانون الٰہی کو اصل اور بنیاد ہے۔زندگی کا کوئی بھی پہلو عدل کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ عدل و انصاف ہی ہے جس کی بناءپر کوئی معاشرہ پرامن اور خوشحال ہوسکتا ہے۔صرف عادلانہ نظام میں ہی ا فرد کے کردار کی تعمیر و تشکیل اور نتیجتاًاجتماعی بہتری ممکن ہے۔قرآن حکیم عدل قائم کرنے پر زور دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
”عدل قائم کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔“
ایک ایسا معاشرہ جس میں عدل کو فوقیت اور برتری حاصل ہو اس میں ہمیشہ اتحاد و اتفاق، محبت ، خلوص اور امن پایا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔عدل قائم کرواللہ کی رضا کے لئے شہادت کو قبول کرو خواہ یہ خود تمھارے خلاف ہو، خواہ وہ امیر ہو یا غریب اور لوگوں سے نفرت تمہیں انصاف کرنے سے نہ روکے۔“
اسلام کے عدالتی نظام میں افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

مساوات

اسلام انسانوں کے درمیان مساوات کا علم بردار ہے۔ اسلام رنگ و نسل، زبان،و ثقافت اور امارت و غربت سمیت تمام امتیازات و تفریق کی نفی کرتا ہے۔ رسول اکرم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا۔
” تمام انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں ۔کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔“
اسلام میں فوقیت اور برتری کی بنیاد تقویٰ ہے نہ کہ دولت یا اختیار و اقتدار ۔ اسلام میں لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔کوئی کسی سے برتر نہیں سوائے ان کے جو تقویٰ یعنی پرہیزگاری اور خوف ِخدا اختیار کرتے ہیں۔قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ تمام انسانوں کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں بہتر سماجی مقام حاصل کرنے کے یکساں اور مساوی مواقع حاصل ہیں۔

اخوت

اخوت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”کل مسلم اخوة“ یعنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اخوت کا اصول اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔ بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا احساس ، محبت، باہمی تعاون اور قربانی کے جذبات کو ابھارتا اور فروغ دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا۔
”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھا ئی ہے اور اپنے بھائی کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہیں بنتا ہے۔“
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا۔
”پس میں کینہ نہ رکھو۔حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرواور سب بھائی بھائی بن جاو۔“
مختصر یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھنی چاہئے اور نہ ہی حسد کرنا چاہئے۔مسلمان تو مسلمان ہیں اسلام تو غیر مسلموں کے خلاف بھی سازش کرنے اور برُے خیالات رکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے۔
رواداری اور برداشت اسلام کی نظر میں نہایت عظیم نیکیاں ہیں۔ جو انسان کو مشکل و دشواری سے بچاتی ہیں اور دوسروں کے لیے پیار و محبت کا ذریعہ بنتی ہیں۔لوگوں کے درمیان سماجی تعلقات قائم کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے۔ باہمی جھگڑوں سے بچنے کے لئے رواداری بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے اخوت اور امن کا ماحول فروغ پاتا ہے اور انسانی رشتوں میں استحکام آتا ہے ۔ رسول اکرم نے اپنے قول و فعل سے رواداری کا درس دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ہے۔
”دین میں کوئی جبر نہیں۔“
یہ رواداری کا ایک سنہری اصول ہے۔ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے جائز حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جو اپنے خیالات اور نظریات کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔


سوال: پاکستان کے مختلف آب و ہوائی خطے کون سے ہیں؟
سالانہ درجہ حرارت،سالانہ بارش اورمجموعی فضائی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو مندرجہ ذیل چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ
  بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ
  بری آب و ہوا کا میدانی خطہ
 بری آب و ہوا کا ساحلی خطہ


  بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ

آب و ہوا کے اس خطہ میں پاکستان کے تمام شمال مشرقی اور شمال مغربی پہاڑی علاقے شامل ہیں۔ یہاں کا موسم سرما سرد ترین ہوتا ہے اور عموماً برف باری ہوتی ہے۔موسم گرما ٹھنڈا ہوتا ہے جبکہ موسم سرما اور بہار میں بارش اور اکثر دھند رہتی ہے۔

  بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ

آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علاقہ آتا ہے۔مئی سے وسط ستمبر تک گرم اور گرد آلود ہوائیں مسلسل چلتی رہتی ہیں۔سبی اور جیکب آباد اسی خطہ میں واقع ہیں۔جنوری اور فروری کے مہینوں میں کچھ بارشیں ہوتی ہیں۔موسم شدید گرم اور خشک رہتا ہے جبکہ گرد آلود ہوائیں اس خطے کی اہم خصوصیت ہیں۔

  بری آب و ہوا کا میدانی خطہ

آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علاقہ آتا ہے۔ دریائے سندھ کا بالائی علاقہ(صوبہ پنجاب) اور زیریں میدان (صوبہ سندھ) شامل ہیں۔ اس خطہ کی آب و ہوا میں موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت رہتا ہے اور موسم گرما کے آخر میں مون سون ہواو�¿ں سے شمالی پنجاب میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جبکہ بقیہ میدانی علاقے میں بارشیں کم ہوتی ہیں موسم سرما میں بھی بارش کی یہی صورتحال رہتی ہے۔ تھر اور جنوب مشرقی صحرا خشک ترین علاقے ہیں یعنی بارش بہت کم ہوتی ہے۔پشاور کے میدانی علاقے میں طوفان بادو باراں آتے ہیں۔ پشاور میں موسم گرما میں گرد کے طوفان اکثر چلتے ہیں۔

  بری آب و ہوا کاساحلی خطہ

آب و ہوا کے اس خطہ میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ سالانہ اور روزانہ درجہ حرارت میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔موسم گرما کے دوران نیم بحری (سمندر سے آنے والی ہوائیں) چلتی ہیں۔ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔سالانہ اوسطاً درجہ حرارت 32 درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔بارش 180 ملی میٹر سے کم ہوتی ہے۔مئی اور جون گرم ترین مہینے ہیں۔لسبیلہ کے ساھلی میدان میں بارش موسم گرما اور سرما دونوں موسموں میں ہوتی ہیں۔ پاکستان اگر چہ مون سون آب و ہوا کے خطے میں واقع ہے لیکن اس کے انتہائی مغرب میں ہونے کی وجہ سے اس خطے کی خصوصیات کا حامل نہیںہے۔لہٰذا پاکستان کی آب و ہوا خشک اور گرم ہے۔ درجہ حرارت میں انتہائی اختلاف ہے۔ پاکستان کا بہت بڑا حصہ سمندر سے دور واقع ہے۔